کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ صرف ایک اور آزادیِ صحافت کو خوف زدہ کرنے کی کوشش نہیں۔ یہ اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ جب ایک ایسا اخبار، جو دہائیوں سے کشمیر کی سیاسی اتھل پتھل، انسانی تکالیف اور حکمتِ عملی کے مباحث کو دستاویزی شکل دیتا آیا ہے، اچانک کمزور حالت میں دھکیل دیا جائے تو کیا کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی (ایس آئی اے) نے جمعرات کو جموں میں کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ اخبار کے مالکان نے اس چھاپے ماری کو آزاد میڈیا کو چپ کرانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
اس پابندی کو ایک بڑے بیانیہ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔یہ یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ 2019 کے بعد یہ بے حد بڑھ گیا ہے۔کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کر دیے گئے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں اس خطے پر کیا قیامت برپا ہوگئی، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے 25 کتابوں پر پابندی عائد کرنے کے بعد سول سوسائٹی کارکنوں، اظہار رائے کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والے لوگوں اور سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور یونین ٹیریٹری انتظامیہ سے اس پابندی کو ہٹانے کی اپیل کی۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ‘علیحدگی پسندی کو فروغ دینے’ اور ‘ہندوستان کے خلاف تشدد بھڑکانے’ کے الزام میں 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں سرکردہ ہندوستانی مصنفین مثلاً اے جی نورانی، ارندھتی رائے اور انورادھا بھسین سمیت معروف مؤرخین نے لکھی ہیں۔
میں ایک خوشحال ملک کا شہری ہوں اور معترف ہوں کہ یہ خوشحالی آپ کی بدولت ہے۔ آپ کے اقتدار سے پہلے یہ ملک دنیا کا سب سے غریب ملک تھا ۔لوگ زندہ درگور تھے۔ آپ نے ہمیں غربت ، جہالت اور ذلت کی دلدل سے آزاد کیا۔ میری طرح آپ کے لاکھوں پرستار ہیں۔ ایک اداکارہ تو آپ کی دیوانی ہے۔ اس نے بجا فرمایا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں ۔ آپ نے ہمیں آزادی، عزتِ نفس اور تاریخی افتخار سے آشنا کیا ہے۔
دی کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی طرف سےکشمیر میں صحافیوں کی صورتحال پرنیویارک ٹائمز میں لکھے گئے مضمون کو مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے ‘شاطرانہ اور فرضی پروپیگنڈہ’ قرار دیا تھا۔ بھسین نے کہا کہ وزیر کا ردعمل ان کے معروضات کو درست ثابت کرتا ہے۔
بارہ ابواب پر مشتمل 400صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ انورادھا نے اس کتاب میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ 14 نومبر سے اس معاملے کی شنوائی کرے گی۔ مرکز کو پانچ اگست کے صدر جمہوریہ کے حکم کے خلاف دائر عرضیوں پر اپنا جوابی حلف نامہ دائر کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
سپریم کورٹ جموں و کشمیر میں نابالغوں کو حراست میں لینے، ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانے جیسے کئی معاملوں پر دائر عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے سپریم کورٹ سے کہا گیا کہ قومی مفاد میں لئے گئے انتظامی فیصلوں کی اپیل پر کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔ صرف عدالت ہی اس کو دیکھ سکتی ہے اور درخواست گزار اس کو نہیں دیکھ سکتے۔
حکومت کی مداخلت یا انتظامیہ کے دباؤ کا الزام لگانا ایک کمزور بہانہ ہے-میڈیا پیشہ وروں نے خود ہی خود کو اپنے اصولوں سے دور کر لیا ہے۔ وہ بےآواز کو آواز دینے یا حکمراں طبقے سے جوابدہی کی مانگ کرنے والے کے طور پر اپنے کردارکو نہیں دیکھتے ہیں۔ اگر وہ خود سسٹم کا حصہ بن جائیںگے، تو وہ ان سے سوال کیسے پوچھیںگے؟
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں کشمیر میں میڈیا پر پابندی پر پریس کاؤنسل کے قدم پر سینئر صحافی پریم شنکر جھا، جئے شنکر گپت اور کشمیر ٹائمس کی ایگزیکٹوایڈیٹر انورادھا بھسین سے سینئر صحافی ارملیش کی بات چیت۔
سی جے آئی رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ کشمیر ٹائمس کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی ریاست میں ذرائع ابلاغ سے پابندی ہٹانے سے متعلق عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جہاں مرکز نے عدالت سے کہا کہ ریاست میں کسی بھی اشاعت پر کوئی روک نہیں ہے۔
’کشمیر ٹائمس ‘کی مدیر انورادھا بھسین نے سپریم کورٹ میں ریاست میں میڈیا پر لگی پابندی ہٹانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی میں بند ہونے کی وجہ سے صحافی کام نہیں کر پا رہے ہیں۔